اشفاق اللہ خان کی ڈائری کے مطابق ان کے والد کے خاندان میں کوئی بھی فرد گریجویشن مکمل نہیں کر سکا، جبکہ ان کے ماموں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور برطانوی حکومت کے تحت نمایاں عہدوں پر کام کر رہے تھے۔
شاہد صد یقی علیگ
شاہجہاں پور جسے شہیدوں کی سرزمین بھی کہتے ہیں، جہاں پہلی جنگ آزادی 1857ء کے سرخیل مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ اور مولوی سرفراز علی گورکھپوری نے انگریزوں کو دن میں تارے دکھا دیئے تھے، شاہجہاں پور کو مغل دربار سے وابستہ دلیر خان اور بہادر خان نے مغل شہنشاہ شہاب الدین محمد خرّم شاہجہاں کے نام پر بسایا تھا۔ خطہ روہیل کھنڈ اپنی گنگا-جمنی تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے، اسی روایت کی اہم کڑی عظیم انقلابی شہید اشفاق اللہ خاں اور رام پرشاد بسمل بھی ہیں، اشفاق اللہ خاں کے بڑے بھائی رعایت اللہ خان، رام پرشاد بسمل کے ہم جماعت تھے، وہ اکثر وبیشتر اپنے چھوٹے بھائی اشفاق سے بسمل کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ بھائی کی باتیں سننے کے بعد ہی اشفاق کے دل میں رام پرشاد بسمل سے ملنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی، پہلی ملاقات کی وجہ صرف شاعری تھی، لیکن وقت کے ساتھ وہ پروان چڑھتی گئی، مختلف مذاہب کے پیروکار ہونے کے باوجود دونوں میں گہری اور بے مثال دوستی تھی۔ جنہوں نے ملک و قوم کی خاطر برطانوی سامراج سے آزاد کر انے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ ہنستے ہنستے پیش کیا۔
اشفاق اللہ خاں کی پیدائش شاہجہاں پور میں 22 اکتوبر 1900ء کو ایک معزز جاگیردار شفیق اللہ خاں ساکن محلہ یمن زئی کے گھر میں ہوئی۔ جنہیں گھر والے اچھو میاں اور دوست کنور کہتے تھے، جو چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اشفاق اللہ خاں دلیر، جانباز اور ملنسار ہونے کے علاوہ ایک شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی طبع آزمائی کی۔ اشفاق اللہ خان کی ڈائری کے مطابق ان کے والد کے خاندان میں کوئی بھی فرد گریجویشن مکمل نہیں کر سکا، جبکہ ان کے ماموں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور برطانوی حکومت کے تحت نمایاں عہدوں پر کام کر رہے تھے۔
اشفاق اللہ خاں کا جھکاؤ دوران تعلیم انقلابی سرگرمیوں کی جانب ہوگیا تھا، بموجب انہوں نے نویں درجہ کے بعد بالآخر مشن اسکول کو خدا حافظ کہہ دیا اورہندوستان سوشلٹ ریپلک ایسویشن کے سرگرم رکن بن گئے۔ چوری چورا سانحہ کے بعد جب مہاتما گاندھی نے عدم تعاون تحریک واپس لے لی تو ہزاروں انقلابی نوجوان اپنے آپ کو دھوکے کا شکار سمجھنے لگے تھے۔ اشفاق اللہ خان بھی ان میں سے ایک تھے، چنانچہ انہوں نے محسوس کیا کہ اب ہندوستان کو جلد از جلد انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا چاہیے۔ برطانوی حکام کی رعونت اور ظلم وستم کو دیکھ انقلابیوں کو احساس ہونے لگا کہ ان سے شائستگی سے بات کرنا یا کوئی التجا کرنا بے معنی ہے چنانچہ ہندوستان سوشلٹ ریپلک ایسویشن کے کارندوں نے برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک خفیہ حکمت عملی وضع کی جو گاندھی جی کی عدم تشدد کے نظریہ کے برعکس تھی، جس کی تکمیل کے لیے ایک بڑی رقم درکا رتھی، چنانچہ ہندوستان سوشلٹ ریپلک ایسویشن نے برطانوی حکومت کا خزانہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔
8 اگست1925ء کو HSRAکی ایک ہنگامی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں سہارنپور-لکھنؤ 8 ڈاؤن مسافر ٹرین میں جانے والی رقم لوٹنے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ 9 اگست 1925ء کو اشفاق اللہ خان سمیت آٹھ دیگر انقلابیوں نے رام پرساد بسمل کی قیادت میں اس ٹرین کو لوٹ لیا تو پورے علاقہ میں افراتفری کا ماحول برپا ہوگیا، جائے واردات سے پولیس کو ایک چادر دستیاب ہوئی جس پر شاہجہاں پور کے ایک دھوبی کی مہر تھی، جس کی بنا پر پولیس تحقیقات کا سارا رخ یہیں منتقل ہوگیا، علاوہ ازیں ایچ ایس آر اے کے کارکنوں کے سرکاری گواہ بننے سے پوری سازش بہت جلد بے نقاب ہوگئی، یکے بعد دیگرے انقلابی برطانوی حکام کی گرفت میں آتے آگئے، آخرکار مورخہ 25 ستمبر1925ء رام پرشاد بسمل بھی ساتھیوں کی جاسوسی سے پولیس کے جال میں پھنس گئے، لیکن کیس کا اصل روح رواں پولیس کی گرفت سے باہر تھا۔
اشفاق اللہ خاں اپنے ساتھیوں کے انگریزوں کی گود میں بیٹھنے سے دل برداشتہ ہوگئے اور انہوں نے شاہجہاں پور کو خیر باد کہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اشفاق چھپتے چھپاتے پیر مرشد حضرت وارث علی شاہ کے روضہ مبارک بارہ بنکی (دیوا شریف) پر حاضری دے کر بنارس ہوتے ہوئے بہار پہنچے۔ جہاں ڈالٹن گنج میں کچھ عرصے تک ایک انجینئرنگ فرم میں ملازمت کی، اسی اثنا میں اشفاق کے دل میں بیرونی ملک میں مقیم انقلابیوں سے ملنے کا خیال پیدا ہوا، چنانچہ اپنی آرزو کی تکمیل کے لیے غالباً دس ماہ کے بعد دہلی کا رخ کیا۔ دوران جلاوطنی، اشفاق اپنے ساتھیوں پر چل رہے گورکھپور اور لکھنؤ میں زیر سماعت مقدموں سے غافل نہیں رہے، انہیں احساس ہوچکا تھا کہ قانونی چارہ جوئی سیراب کے علاوہ کچھ نہیں، حکومت تمام ملزمان کو سزاد ینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ دہلی میں ان کی ملاقات بچپن کے ایک دوست سے ہوئی، جس نے اپنے گھر پر لے جاکر ان کی بڑی خاطر تواضع کی، لیکن اس دغاباز دوست نے انہیں دھوکہ دیا اور پولیس کو اطلاع دے دی۔ الحاصل 8 ستمبر 1929ء کو علی الصبح پولیس نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔
مقدمہ کی کاروائی لکھنؤعدالت میں شروع کردی گئی۔ اس مقدمہ کے انچارج پولیس افسر تصدق حسین تھے۔ جس نے مذہب کا سہارا لے کر بسمل اور اشفاق کی دوستی کو توڑنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ اشفاق بھی دیگر ساتھیوں کی طرح بسمل پر سارا الزام تھوپ کر اپنی جان بچالیں، لیکن اشفاق اللہ خاں کے موقف میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ اشفاق اللہ خاں نے قید و بند کی صعوبتیں فیض آباد جیل میں برداشت کیں۔ جیل میں انہوں نے نماز، قرآن مجید اور روزوں کا پابندی سے پورا اہتمام کیا۔
اشفاق اللہ خان کو فیض آباد جیل میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کاکوری واقعہ میں چار افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ جس میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان بھی شامل تھے۔ 19 دسمبر 1927ء کو دونوں دوستوں اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کو ایک ہی وقت میں دو مختلف جیلوں فیض آباد اور گورکھپورمیں پھانسی دے دی گئی۔