۔کشمیری عوام آرٹیکل 370 کی واپسی نہیں’خوش خوشخا لی اور ترقی چاہتی ہے

۔کشمیری عوام  آرٹیکل 370  کی واپسی نہیں’خوش خوشخا لی اور ترقی چاہتی ہے۔شعور جاگ رہا ہے ’اسلام کے نام پر گمراہ  نہیں ہونگے۔

شعور جاگ رہا ہے ’اسلام کے نام پر گمراہ  نہیں ہونگے۔پھتر با زی اور در اندازی کے واقعات میں کمی’امن لوٹ رہا ہے۔

حیدرآباد۴۔اگست (پی ایم آئی)،اگست۔آج سے ٹھیک دو سال قبل کشمیر کی تقدیر آرٹیکل 370 کی منسوخی سے بدل گئی جس پر پا کستان سر پیٹ تا رہیگا۔ان دو برسوں کے دوران کشمیر بڑی حد تک ترقی اور خوشحالی کی طر ف رواں دواں ہے۔۵،اگست کا ۲۰۱۹ کا دن ہندوستان کی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جا نا چا ہیے۔یہ الفاظ ان کشمیریوں کے ہیں جنہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا خیر مقدم کیا ہےبلکہ مشمیریوں کی اکثرت مودی سرکار کے اس اقدام کی تائید و حمایت کر تی ہے۔ان کا کہنا ہے کے آرٹیکل 370 کافائدہ صرف قائدین کو ہوا ہے عوام کو نہیں۔عوام جمہوریت چاہتے ہیں ، نہ کہ خون خرابہ’آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ۔ پنچایت او ر نگر پالیکا انتخابات پر امن طور پر جمہوری طرز پر منعقد ہوئے۔ایسے علاقے جوپا کستان کی سرحد کے قریب ہیں وہاں وہ مجاہدین جو پاکستان کے تر بیت یا فتہ ہیں در اصل دہشت گرد ہیں اسلام کے نام پرگمراہ کر رہے ہیں ۔جبکہ مر کزی حکومت جموں و کشمیر کے نو جوانوں کو گلے لگانا چاہتی ہے اور انہیں بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع فراہم کرانا چاہتی ہے۔بزرگ کشمیری شخص حمید بھٹ کاکہنا ہے کے میں کشمیری نو جوانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ آرٹیکل 370 سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔ اس سے صرف چند خوشحال اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہو گا ، جو نو جوانوں کو اپنے فائدے اور اپنے مفاد کے لئے ہمیشہ کنارے لگائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ مرکز کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر سرمائے کی فراہمی کے باوجود تعلیمی اور صحتی سہولتیں کہاں ہیں ۔ جو لوگ آرٹیکل 370 کی حمایت کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ آرٹیکل ریاست کے باہر سے پیشہ وروں کو ریاست میں آنے اور سکونت پذیر ہونے سے روکتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ نو جوانوں کو پاکستان کے ناپاک ارادوں اور چالوں کے مطابق جہاد میں شریک ہونے کے لئے گمراہ کیا گیا ہے ۔ ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں ، کیوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کی سرکاری پالیسی رہی ہے کہ آرٹیکل 370 کی حمایت کی جائے اور نو جوانوں کو ترقی کے اہم دھارے میں شامل ہونے سے روکا جائے اور ان کی ذہن سازی جہاد کے لئے کی جائے ۔ تمام سیاسی پارٹیاں ، جن کا نظریہ علیحدگی پسندانہ ہے ، وہ آرٹیکل 370 کو اپنے نجی مفاد کے لئے باقی رکھنا چاہتی ہیں ۔ ان کے بچے دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے خون خرابے میں ہلاک نہیں ہوتے ۔ لہٰذا ، وہ اس آرٹیکل کی حمایت کرتے ہیں ۔نکہت خاتون نے کہا کےجو اپنےآپِ مجا ہدین کہتے ہیں ان پاکستا نیوں نے کشمیری لڑکیوں کے عزت و آبرو سے کھیلا ’خاص طور پر سرحدی علا قوں کی عورتوں کو اپنی حوص کا شکار بنا یا ہے۔غیروں سے گلا کر نے سے پہلے کشمیری اپنوںکی نا پاک حرکتوں کا جائزہ لیں۔

انہوں نے کہا: ‘آج کا جموں و کشمیر ایک خوشحال ماحول میں آگے بڑھ رہا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو پھر سے تباہ کن ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ان کو الگ تھلگ کیا جانا چاہیے۔ لوگوں کو ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے ایک خوشحال زندگی گزر بسر کرنی چاہیے۔کشمیری عوام کی اکثریت آج آرٹیکل 370 کی منسو خی سے کا فی حد تک خوش ہے اس لئے کے وہ اہنے بچوں کی تعلیمی اورمعاشی ترقی چا ہتے ہیں جو دھیرے دھیرے ہو رہی ہے۔صرف انتہا پسند ’پا کستان نواز نا حوش ہیں ۔جبکہ پاکستان کے پاس سوائے کشمیر کے اور کوئی مداّ نہیں ہے۔بعض کشمیریوں کو دہشت گرد بنا نے میں پاکستا ن ذمہ دار ہے۔چونکہ وہ جہادی تنظیموں کی سر کاری سر پرستی کرتا ہے۔پا کستان کشمیری مسلمانوں پر ظلم کی بات کر تا ہےمگر چین میں مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش ہے۔آج حا لات بدل رہے ہیں کشمیریوں میں شعور جاگ رہا ہے۔
کشمیریوں کا کہنا ہے کے د فعہ 370 کی وجہ سے یہاں ترقی اور لوگوں کو با اختیار بنانے سے متعلق اسکیمیں لاگو نہیں تھیں۔ اب وہ اسکیمیں لاگو ہو چکی ہیں۔ ان کا اثر بھی نظر آنے لگا ہے۔ انکا ا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر میں ترقی اور لوگوں کو با اختیار بنانے کے میدان میں ہمیں بہت جلد انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔کشمیری یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کے دفعہ 370 کو پارلیمنٹ نے ختم کیا ہے۔ اس کی واپسی ناممکن ہے۔ یہاں کے لوگ ترقی کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ جب گپکار الائنس والوں کو پتہ چلا کہ ہم تو الگ تھلگ ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدلا اور انتخابی میدان میں کودٖپڑے۔اس سے صاف ظا ہر ہے کے وہ جان چکے ہیں کے علحذہ پسندی کی دو کانیں نہیں چلیں گی۔اب تک پا کستان گولی کہلا تا رہا ۔ہنددستان روٹی کہلا رہا ہے۔
کشمیری بزرگوں کا کہنا ہے کے آرٹیکل 370 اور 35 اے نے جموں کشمیر کو علیحدگی پسندی، دہشت گردی، کنبہ پرستی اور نظام میں بڑے پیمانے پر پھیلی بدعنوانی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ان دونوں آرٹیکلز کا ملک کے خلاف کچھ لوگوں کے جذبات بھڑکانے کےلئے پاکستان کے ذریعہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہا تھا۔واضح رہے کے ملک کی دیگر ریاستوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن جموں و کشمیر کے بچے اس سے محروم تھے۔ ملک کی ریاستوں میں بیٹیوں کو جو سارے حق ملتے ہیں، وہ سارے حق جموں و کشمیر کی بیٹیوں کو نہیں ملتے تھے۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں صفائی کارکنان کےلئے صفائی کارکنان ایکٹ نافذ ہے لیکن جموں کشمیر کے صفائی کارکنان اس سے محروم تھے۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں دلتوں پر ظلم و زیادتی روکنے کے لئے سخت قانون نافذ ہے لیکن جموں کشمیر میں ایسا نہیں تھا۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں اقلیتوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے مائناریٹی ایکٹ نافذ ہے لیکن جموں و کشمیر میں ایسا نہیں تھا۔

ہاں کے کچھ علاقوں میں پرتشدد سرگرمیوں کے باوجود 1990کی دہائی یا 2006تک کے حالات سے اگر موازنہ کریں تو حالیہ برسوں میں وادی میں امن کا نظام قائم کرنے میں ہماری سکیورٹی فورسز کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔ یہ ٹرینڈ آگے بھی قائم رہ سکتا ہے۔اسکے بر خلاف جموں و کشمیر کے حالات مسلسل بہتر ہورہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سال 2020 میں بین الاقوامی سرحد پار کرکے وادی میں گھسنے کی 99 کوششیں ہوئیں، جب کہ2019میں 216مرتبہ اس طرح کی دراندازی کی کوششیں کی گئی تھیں۔ اسی طرح دہشت گردانہ تشدد کے بھی 2019میں 594 واقعات کے مقابلہ 2020میں 244واقعات درج کیے گئے۔ پتھربازی بھی یہاں کم ہوئی ہے اور سال 2019 کے 2000واقعات کے مقابلہ 2020 میں 327 مرتبہ ہی ایسا ہوا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کے وادی میں جتنی بھی دہشت گردانہ تنظیمیں ہیں، ان سب کی کمر تقریباً ٹوٹ چکی ہے۔کیونکہ اس میں مقامی لوگ سکیورٹی فورسز کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں۔قابل ذکر یہ بھی ہے کہ آرٹیکل 370ہٹانے سے قبل یہاں پتھربازی یا تشدد کے جتنے بھی واقعات ہوتے تھے، ان میں سے 55سے 65فیصد پانچ تحصیلوں
میں ہی محدود ہوتے تھے۔جہادی تنظیمیں جو جوانوں اور بچوں کو پتھر پھینکے کے پیسے دیا کر تے تھے۔پتھر بازی کے واقعات میں کمی نے ثابت کر دیا ہے کےاب کشمیری نو جوان پا کستان نوازدہشت گردوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں