حیدر آباد: کرونا وائرس بظاہر بے جان نظر آتا ہے لیکن یہ ایک نہایت ذہین جرثومہ ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس وائرس کے بغور مطالعہ سے ہمارا ایمان تازہ ہوجائے گا۔ کرونا نے ہمیں جس قدر سکھایا ہے اس سے کہیں زیادہ پہلے سے موجود نظریات کو مسترد کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز سائنسداں پروفیسر شیر علی، سابق ڈائرکٹر انٹر ڈسپلنری سائنسس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آج پانچویں قومی اردو سائنس کانگریس کے آن لائن افتتاحی اجلاس میں کیا۔ کانگریس کا عنوان ”بین علومی سائنسی تحقیق پر ٹکنالوجی کے اثرات“ ہے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔
روفیسر شیر علی نے ”تجسیمی ادویہ: امیدیں، مبالغہ اور چیلنجز“ کے موضوع پر نہایت دلچسپ اور پُر مغز کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ اردو کے نظریہ سے سائنس کو دیکھنا اور سائنسی نظر سے اردو کا مطالعہ اپنے آپ میں ایک نہایت خوبصورت تجربہ ہے۔ سائنس کانگریس کے موضوع کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمہ علومی سائنسی تحقیق کے نتیجے میں سرگرمیوں اور ٹکنالوجی کے اطلاق کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مختلف میدانوں کے علوم کا جب مشترکہ انطباق ہوتا ہے تو حیرت انگیز تنائج ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہوائی جہاز کے سفر کے اپنے تجربہ کی مثال دی کہ کس طرح پائلٹ نے یقینی طوفان کی موجودگی کی اطلاع کے پیش نظر طیارے کا راستہ تبدیل کرتے ہوئے مسافروں کو بحفاظت منزل تک پہنچا دیا۔ انہوں نے اسے ہمہ علوم ٹکنالوجی کے اشتراک کی ایک معمولی مثال قرار دیا۔
حیدر آباد: کرونا وائرس بظاہر بے جان نظر آتا ہے لیکن یہ ایک نہایت ذہین جرثومہ ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس وائرس کے بغور مطالعہ سے ہمارا ایمان تازہ ہوجائے گا۔ کرونا نے ہمیں جس قدر سکھایا ہے اس سے کہیں زیادہ پہلے سے موجود نظریات کو مسترد کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز سائنسداں پروفیسر شیر علی، سابق ڈائرکٹر انٹر ڈسپلنری سائنسس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آج پانچویں قومی اردو سائنس کانگریس کے آن لائن افتتاحی اجلاس میں کیا۔ کانگریس کا عنوان ”بین علومی سائنسی تحقیق پر ٹکنالوجی کے اثرات“ ہے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ وائس چانسلر انچارج نے صدارت کید
پروفیسر شیر علی نے ”تجسیمی ادویہ: امیدیں، مبالغہ اور چیلنجز“ کے موضوع پر نہایت دلچسپ اور پُر مغز کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ اردو کے نظریہ سے سائنس کو دیکھنا اور سائنسی نظر سے اردو کا مطالعہ اپنے آپ میں ایک نہایت خوبصورت تجربہ ہے۔ سائنس کانگریس کے موضوع کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمہ علومی سائنسی تحقیق کے نتیجے میں سرگرمیوں اور ٹکنالوجی کے اطلاق کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مختلف میدانوں کے علوم کا جب مشترکہ انطباق ہوتا ہے تو حیرت انگیز تنائج ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہوائی جہاز کے سفر کے اپنے تجربہ کی مثال دی کہ کس طرح پائلٹ نے یقینی طوفان کی موجودگی کی اطلاع کے پیش نظر طیارے کا راستہ تبدیل کرتے ہوئے مسافروں کو بحفاظت منزل تک پہنچا دیا۔ انہوں نے اسے ہمہ علوم ٹکنالوجی کے اشتراک کی ایک معمولی مثال قرار دیا۔
پروفیسر شیر علی نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا کہ موجودہ دور میں مریض کے جینیاتی پس منظر کے مطالعہ کے بجائے اس کے مختلف ٹسٹ کے نتائج پر انحصار کرتے ہوئے دوائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ اوسطاً ایک خلیہ 42 ملین پروٹین کا حامل ہوتا ہے۔ بیشتر بیماریاں انسان کی اپنی غلطی کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے انسان کے ڈی این اے اور جینوم کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا دماغ 3 لاکھ سے زائد الفاظ کا ذخیرہ کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل اور خواہش دونوں دے کر اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غور کریں کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے کیا غلط۔ اور ماحولیات کا بہتر انداز میں استعمال کریں۔
پروفیسر رحمت اللہ نے صدارتی خطاب میں اسکول آف سائنسس کو مبارکباد دی کہ انہوں نے یونیورسٹی کی ایک اچھی روایت سائنس کانگریس کو جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ مہمانِ خصوصی نے اردو میں مختلف علوم پر کتابیں لکھنے کے لیے اردو یونیورسٹی کو بہتر مقام قرار دیا ہے۔ تمام اساتذہ کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے۔ پروفیسر رحمت اللہ نے کہا کہ قرآن میں خلقت پر غور کرتے ہوئے خالق کو پہچاننے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس میں سائنسی تحقیق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے اردو، سائنس اور کانگریس تینوں موضوعات پر مختصر بات کی۔ گزشتہ 20 برسوں میں اُردو یونیورسٹی نے اردو کی ترقی و ترویج کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں انجینئرنگ تک کی تعلیم اور تحقیق بھی اردو میں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسباب اور نتائج کے رشتہ کو مربوط ہونے کو سائنس کہتے ہیں۔ سائنس کے باعث انسان کی خوشحالی ممکن ہے۔ دستور میں بھی سائنسی مزاج کی بات کی گئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی اس جانب توجہ دی گئی ہے۔ پالیسی میں خصوصی طور پر تحقیق اور بین موضوعاتی تعلیم کا حوالہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی پر یونیورسٹی میگزین ’الکلام‘ کا 29 واں خصوصی شمارہ شائع ہوا ہے۔ اردو یونیورسٹی سائنس کانگریس اور سوشیل سائنس کانگریس کے تسلسل کے ساتھ انعقاد کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہی ہے۔
پروفیسر پروین جہاں، ڈین، اسکول آف سائنسز نے خطبہ استقبالیہ میں کانگریس کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ انہوں نے سائنس کے فوائد اور نقصانات پر روشنی بھی ڈالی۔ پروفیسر سید نجم الحسن، شعبہ ریاضی و کنوینر سائنس کانگریس نے تعارفی کلمات میں کہا کہ 50 مقالے منتخب کیے گئے جو دو دن میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ سعودی عرب اور ملیشیا سے بھی اسکالر اس کانگریس سے جڑے ہیں۔ 200 سے زائد اسکالرس آن لائن شرکت کر رہے ہیں۔
انہوں نے پروفیسر شیر علی کا تعارف بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر ارا خان، اسسٹنٹ پروفیسر نے کاروائی چلائی۔ ڈاکٹر قسیم اللہ، اسسٹنٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔ مظہر سبحانی کی قرأت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ دو روزہ کانفراس کے 6 تکنیکی اجلاس ہوں گے۔ اختتامی اجلاس جمعرات کو منعقد ہوگا۔ افتتاحی اجلاس کا مانو کے انسٹرکشنل میڈیا سنٹر یوٹیوب چینل پر راسٹ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔