امریکہ”عرب اسرائیل“اتحاد مستحکم کرنے کا خواہاں
جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص افغانستان کیلئے نئی پالیسی کا اعلان جوبائیڈن کا کڑا امتحان ہے
محبوب احمد
مشرق وسطیٰ کا بحران امریکہ کیلئے سب سے کڑا امتحان ہے نومنتخب امریکی حکومت کے لئے سفید فام بالادستی اور داخلی دہشت گردی سمیت دیگر اندرونی و بیرونی کٹھن مسائل پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں لیکن یہاں ایک بات واضح نظر آرہی ہے کہ جوبائیڈن کی ٹیم میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سابق صدر اوباما کی انتظامیہ میں شامل تھے لہٰذا اب انہی پالیسیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے گی جو انہوں نے اپنے سابقہ دور حکومت میں بنائی تھیں۔
46 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے جوبائیڈن کی جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص افغانستان کے لئے نئی پالیسی آنے والے دنوں میں کیا رنگ لائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں نے امریکہ کو ایک تاریک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔
امریکہ ان دنوں شدید مسائل کی لپیٹ میں ہے کیونکہ”کرونا“سے جہاں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا،سٹاک مارکیٹ میں کچھ بہتری کے باوجود ملک میں روزگار اور کاروبار کافی متاثر ہوا وہیں افغانستان سے امریکی معاہدے کے مطابق 14 ماہ میں تمام افواج کی واپسی مشکل دکھائی دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان قیادت کے نئی امریکی حکومت کو انتباء سے ”امن معاہدہ“ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
دوحہ میں امریکہ کے ساتھ ہونے والا امن معاہدہ ابھی تک مثبت سمت میں جا رہا ہے لیکن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے امریکی افواج کی واپسی اور افغان حکومت کو طالبان قیدیوں کی رہائی یقینی بنانا ہو گی۔ایران کا جوہری معاملہ نئی امریکی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہے کیونکہ یہ تاریخی معاہدہ جو بین الاقوامی طاقتوں نے مشترکہ طور پر طے کیا تھا اب ایک نازک دھاگے سے ہوا میں متعلق ہے۔
یمن میں ایک ہولناک جنگ جاری ہے جس کی ابتداء میں حمایت اوباما انتظامیہ نے یقینا ایران کے ساتھ معاہدے پر سعودی عرب کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کی تھی لیکن اب حالات کچھ اور ہیں۔امریکہ جہاں ایران کو ایک نئے معاہدے سے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والی پالیسیوں اور بیلاسٹک میزائل بنانے کے پروگرام سے باز رکھنے کو ترجیح دے گا وہیں اسرائیل اور عرب ممالک کے روابط کو مستحکم کرنے کیلئے صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی۔
واشنگٹن کے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی کے بعد ایران آہستہ آہستہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود رکھنے کی یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹتا گیا،حال ہی میں ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کی سطح 20 فیصد تک لے جانے کے اعلان سے امریکہ اور یورپی ممالک سے اس کے تعلقات میں تناؤ بھی بڑھا ہے۔ایران کی قیادت کئی مرتبہ اس بات اعادہ کر چکی ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط کی پاسداری کرنے لگے گی اگر امریکہ بھی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے لیکن گزشتہ 4 برس کی صورتحال سے شکوک و شبہات کو تقویت ملی اور ایران کے اندر مغرب سے معاملات طے کرنے کی مخالفت بڑھی ہے لہٰذا اب جوبائیڈن انتظامیہ ماضی کی تلخیوں اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں چاہے گی کہ وہ 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دے جس کو بین الاقوامی سفارتکاری کی تاریخ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔
جوبائیڈن نے انسانی حقوق کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہوا ہے جس سے مستقبل قریب میں ریاض،تہران،قاہرہ یا پھر کسی اور کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں مشکلات ضرور پیش آئیں گی۔امریکہ میں نومنتخب کانگریس کے بیشتر ارکان پہلے ہی ایسے اشارے دے چکے ہیں کہ وہ خارجہ پالیسی میں زیادہ عمل دخل چاہتے ہیں جن میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ،یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی معاونت کو ختم کرنا،عرب اور اسرائیل تعلقات کا استحکام ،سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال جس میں مخالفین کو قید میں رکھنے اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ سرفہرست ہے۔
جوبائیڈن کی طرف سے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس مقرر کی جانے والی ایورل ہینز نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کی حکومت کے دوران ہونے والی لاقانونیت کو ختم کرتے ہوئے کانگریس کے سامنے وہ خفیہ رپورٹ پیش کریں گی جو 2018ء میں استنبول کے سعودی عرب کے سفارتخانے میں جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں پیش کی گئی تھی۔سی آئی اے،امریکی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ سعودی عرب خطے میں کچھ بھی کرنے کے لئے انتہائی اہم ملک ہے ایسے میں امریکی دفاعی امداد کو بند کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔
عرب ریاستوں کا خیا ل تھا کہ امریکہ کی عدم دلچسپی سے وہ خطے کا سیاسی نقشہ خود سے تبدیل کر دیں گے لیکن لیبیا،یمن،ایران اور حتیٰ کہ چھوٹے سے ہمسائے ملک قطر کے معاملات میں بھی انہیں اپنی محدود صلاحیتوں کا اندازہ ہوا لہٰذا نومنتخب امریکی حکومت پرانے روایتی اتحادیوں سے روابط بہتر کرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔
سابق امریکی صدر نے ایران کے اثر و رسوخ پر قابو رکھنے کے لئے خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کو فروغ دیا تھا کیونکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مشترکہ خدشات ہیں اور وہ اسے ایسی طاقت سمجھتے ہیں جو مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد مسلم ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو بحث شروع ہوئی تھی وہ اب ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔عرب ممالک اور اسرائیل مشرق وسطیٰ کے لئے ایک”سٹریٹجک ایجنڈا“لانچ کرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور یہی امریکہ کا سب سے بڑا مشن تھا لہٰذا اب اسی مقصد کے حصول کیلئے نیتن یاہو دیگر عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب سے غیر متزلزل وفاداری اور ایران پر انتہائی دباؤ برقرار رکھنے کیلئے امریکی تاریخ کے سب سے بڑے 110 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کرتے ہوئے مئی 2017 میں اپنی مدت صدارت کا آغاز سعودی عرب کے دورے سے کیا تھا اور وہیں سے خلیج میں عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان روابط کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
ٹرمپ امریکی تاریخ کے وہ واحد صدر ہیں جن کا کانگریس نے 2 مرتبہ مواخذہ کیا،6 جنوری کو ان کے حامیوں کی طرف سے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ہنگامہ آرائی کے بعد ان پر اپنی ہی پارٹی کی طرف سے تنقید میں نمایاں اضافہ ہوا لیکن یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ کیپٹل بل پر ہنگامہ آرائی کے بعد ریپبلکن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تنہاء کر دیئے جانے،مخالفت اور تنازعات کے باوجود ٹرمپ ہار ماننے کے لئے تیار نہیں اور سیاست میں متحرک رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے اقتدار کے آخری چند لمحات میں صدارتی استحقاق استعمال کرتے ہوئے کرپشن اور دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث اپنی متعدد قریبی رفقاء کو بچانے کیلئے کئی صدارتی حکم نامے اور معافی نامے جاری کئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ ان فیصلوں کو کس حد تک تسلیم کرتی ہے بہرحال اس سارے کشمکش اور کھینچاتانی کے ماحول نے جمہوریت کو پروان چڑھانے کے دعویدار سپر پاور امریکہ کے چہرے پر ایک ایسا بدنما دھبا لگا دیا ہے کہ جسے صاف کرنے کے لئے اب ایک لمبا عرصہ درکار ہو گا۔
مشرق وسطیٰ،ایشیائی،افریقی اور یورپی ممالک میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے لئے شدید بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ خوشگوار آب و ہوا اور قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے پر واشنگٹن ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔دنیا میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کے ساتھ چین پر امن بقائے باہمی اور سب کیلئے فائدہ مند تعاون کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے علاقائی امن و استحکام کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے۔
چینی حکومت نے ایک اندازے کے مطابق بہترین منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے 70 کروڑ سے زائد افراد کو غربت سے باہر نکالا ہے۔چینی صدر نے اپنا فوکس معاشی ترقی اور اندرونی استحکام پر رکھا ہوا تھا لیکن اب وہ عالمی امور میں بھی خاصی گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔چین اگر افغان مسئلے میں فعال کردار ادا کر رہا ہے تو مشرق وسطیٰ میں بھی موجود ہے،افریقہ کی سیاست کے ساتھ ساتھ وہ اب خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیاء میں بھی اہم طاقت بن چکا ہے۔
چین کی برآمدات دنیا میں سب سے زیادہ ہیں جن کی مالیت 2401 بلین ڈالر جبکہ امریکہ کی اس کے مقابلے میں 1501 بلین ڈالر ہے اگر چینی معیشت اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2024ء تک یہ امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ دے گا۔نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن ان دنوں چین کی بڑھتی ہوئی صنعتی،دفاعی اور جوہری صلاحیتوں سے بالکل اسی طرح خائف ہیں جس طرح امریکہ 1980ء میں جاپان کی ترقی سے خوف میں مبتلا تھا۔
سابق امریکی حکومت نے اپنے اتحادی ممالک سے مل کر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر جو ”کواڈ“ نامی ایک گروپ تشکیل دیا تھا اب اسے نیٹو جیسے اتحاد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اگر امریکہ حقیقی معنوں میں امن چاہتا ہے تو اس کو سفارتکاری میں بڑا سرگرم کردار ادا کرنا ہو گا۔