مسلمانوں سے شہریت کیلئے کوئی دستاویزی ثبوت طلب نہیں کیا جائے گا : مرکز کی وضاحت

1987 سے قبل پیدا ہونے والے تمام افراد ہندوستانی شہری ہیں اور وہ بھی مستند شہری ہیں جن کے ماں باپ 1987 سے قبل ملک میں پیدا ہوئے تھے
حیدرآباد ۔ : شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) اور شہریوں کے قومی رجسٹر ( این آر سی ) کے خلاف ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے پر تشدد احتجاج کے درمیان مرکزی حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان دونوں مسئلوں پر پھیلائی جانے والی افواہوں سے گمراہ نہ ہوں ۔ سی اے اے اور این آر سی کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات کو دور کرنے کی ایک کوشش کے طور پر مرکزی حکومت ان دونوں مسائل پر چند عام سوالات کے جوابات فراہم کی ہے ۔ حکومت نے کہا ہے کہ یکم جولائی 1987 یا اس سے پہلے ملک میں پیدا ہونے والے تمام افراد ہندوستانی شہری ہیں جنہیں ڈرنے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں وہ افراد تمام مسلمہ و مستند ہندوستانی شہری متصور کئے جائیں گے ۔ جن کے ماں باپ 1987 سے قبل ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہیں سی اے اے یا این آر سی سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت نے کہا کہ این آر سی کا عمل تاحال قومی سطح پر شروع نہیں کیا گیا ہے ۔ این آر سی میں ہندوستانی ہونے کے بارے میں مسلمانوں سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا ۔ اس میں انہیں صرف اپنے شناختی کارڈ دکھانا ہوگا ۔ چنانچہ سی اے اے اور این آر سی کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے سوالات کے بارے میں مرکزی حکومت کی طرف سے جواب دئیے گئے ہیں :

سوال : کیا مسلمانوں سے ہندوستانی ہونے کے بارے میں ثبوت کی پیشکشی کے لیے پوچھا جائے گا ؟
جواب : سب سے پہلے آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ این آر سی جیسا کوئی عمل قومی سطح پر شروع ہی نہیں کیا گیا ہے ۔ حکومت نہ تو باضابطہ سرکاری اعلان کی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں تاحال کوئی شرائط و ضابطے تیار کئے گئے ہیں ۔ اگر مستقبل میں اس پر عمل کیا جاتا ہے تو بھی کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ کسی سے اس کی ہندوستانیت کے بارے میں کوئی ثبوت پوچھا جائے گا ۔ این آر سی کو آپ ایک طریقہ سے آدھار یا اور کسی دوسرے شناختی کارڈ کے عمل کی طرح دیکھ سکتے ہیں ۔ شہریت کے رجسٹر میں اپنا نام درج کروانے کے لیے آپ کو اپنا کوئی بھی شناخت کارڈ یا ایسی دستاویزات پیش کرنا ہوگا جو ماضی میں آپ آدھار کارڈ یا ووٹر لسٹ میں اندراج کے لیے دئیے تھے ۔۔
سوال : اگر کوئی فرد پڑھا لکھا نہیں ہے اور اس کے پاس درکار دستاویزات بھی نہیں رہیں گے ؟
جواب : اس صورت میں ( این آر سی کے عمل سے وابستہ ) متعلقہ افسر ایسے شخص کو اپنے بارے میں ثبوت دینے کے لیے کسی دوسرے شناسا آدمی کو لانے کی اجازت دے گا ۔ اس کے ساتھ دیگر ثبوت مقامی برادری کی توثیق ( دیہاتیوں کے ذریعہ شناخت و توثیق ) کی اجازت دی جائے گی ۔ ایک صحیح اور مناسب ضابطہ اختیار کیا جائے گا کسی کو بھی غیر ضروری طور پر کسی پریشانی میں نہیں ڈالا جائے گا ۔۔

سوال : ہندوستان میں عوام کی ایک کثیر تعداد غریب اور بے گھر ہے اور تعلیم یافتہ نہیں ہے ان کے پاس اپنی شناخت کی کوئی بنیاد نہیں ہے ایسے افراد کا کیا ہوگا ؟
جواب : لیکن ایسے افراد بہر صورت کسی نہ کسی بنیاد پر اپنا ووٹ تو ڈالتے ہی ہیں ۔ حکومت کی فلاحی اسکیمات سے استفادہ بھی کیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان ہی بنیادوں پر ان کی شناخت بھی قائم کی جائے گی ۔۔
سوال : ایسے زنخوں ، لامذہب ( کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے ) افراد ، قبائیلیوں ، دلتوں ، خواتین اور بے زمین افراد کو جن کے پاس دستاویزات نہیں ہوں گے کیا انہیں این آر سی سے خارج کردیا جائے گا ؟
جواب : جی نہیں ، این آر سی لاگو کیا گیا تو بھی مذکورہ بالا کسی بھی گروپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔
سوال : اگر این آر سی لاگو کیا تو کیا مجھے بھی 1971 سے پہلے کے ثبوت پیش کرنا لازم ہوگا ؟
جواب : بالکل ایسا نہیں ہے ۔ 1971 سے پہلے کے کسی ثبوت کے بارے میں آپ کو اپنے ماں باپ ، دادا دادی ، نانا نانی وغیرہ جیسے بڑوں کے پیدائشی صداقت نامے اور دیگر شناختی دستاویزات پیش کرنا نہیں ہوگا ۔ یہ صرف آسام این آر سی تک محدود تھا جو دراصل آسام سمجھوتہ اور سپریم کورٹ احکام پر مبنی تھا ، لیکن ماباقی ملک کے لیے این آر سی کا عمل (آسام ) مکمل طور پر مختلف اور جداگانہ ہے ۔
سوال : جب کبھی این آر سی نافذ العمل ہوگا کیا ہمیں اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کے پیدائشی صداقت نامے یا متعلقہ تفصیلات پیش کرنا ہوگا ؟
جواب : صرف آپ کی پیدائشی تفصیلات مثلاً تاریخ پیدائش ، مہینہ ، سال اور مقام کی تفصیلات دینا کافی ہوگا ۔ اگر آپ کے پاس پیدائشی تفصیلات دستیاب نہ ہوں تو پھر آپ کو اپنے والدین کے بارے میں ایسی تفصیلات فراہم کرنا ہوگا ۔ لیکن اس کے لیے بھی ماں باپ کی طرف سے کوئی بھی دستاویز داخل کرنا لازمی نہیں ہوگا ۔ المختصر پیدائش کی تاریخ اور مقام سے متعلق کسی بھی دستاویز کی پیشکش سے شہریت ثابت ہوسکتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں