جموں و کشمیرمنقسم ‘ اسمبلی کچھ اسطرح ہوگی

جموں و کشمیر سے لداخ کے الگ کیے جانے کے بعد یہاں کے اسمبلی کی تصویر بدل جائے گی۔ ممکن ہے جموں و کشمیر میں اس سال کے آخر تک انتخاب کرائے جائیں، لیکن اس بار جو اسمبلی ہوگی وہ پہلے سے بہت مختلف ہوگی۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیر کو دفعہ 370 ہٹانے کو لے کر حکومت کی تجویز پیش کی۔ اب جموں و کشمیر اور لداخ الگ الگ مرکز کے ماتحت ریاستیں ہوں گی۔ راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر تشکیل نو بل پاس بھی ہو گیا۔ اس کے حق میں 125 ووٹ پڑے جب کہ خلاف میں 61 ووٹ پڑے۔ اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ جموں و کشمیر اسمبلی والی ریاست ہوگی، لیکن وہ مرکز کے ماتحت ہوگی۔ لداخ بھی مرکز کے ماتحت ریاست ہوگی، لیکن وہاں اسمبلی نہیں ہوگی۔ تشکیل نو کے بعد کشمیر میں اس سال کے آخر تک انتخاب ہو سکتے ہیں۔ ریاست میں 3 جنوری 2019 تک صدر راج نافذ ہے۔
نئی جموں و کشمیر اسمبلی میں کل 107 اراکین اسمبلی ہوں گے۔ ان 107 اراکین اسمبلی میں سے 24 سیٹیں پاکستان کے قبضے والی کشمیر کے اراکین اسمبلی کے لیے خالی رکھی جائیں گی۔ موجودہ اسمبلی میں 111 اراکین کا انتظام ہے جس میں 87 منتخب ہوتے ہیں، 2 نامزد ہوتے ہیں اور 24 پاکستانی قبضے والے کشمیر کے لیے خالی چھوڑا جاتا ہے۔ نئے جموں و کشمیر میں ڈپٹی گورنر کو 2 خاتون اراکین کو نامزد کرنے کا اختیار ہوگا، جب انھیں لگے گا کہ اسمبلی خاتون اراکین کی نمائندگی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں، اسمبلی سے جو بھی بل پاس ہوگا اسے منظوری دینے، اسے اپنے پاس غور کے لیے رکھنے اور صدر جمہوریہ کے پاس غور کے لیے بھیجنے کا بھی ڈپٹی گورنر کے پاس اختیار ہوگا۔ مرکز کے ماتحت جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد کے 10 فیصد سے زیادہ وزراء کی تقرری نہیں کر سکیں گے۔
جموں و کشمیر میں پہلے 87 اسمبلی سیٹیں تھیں۔ لیکن لداخ کو الگ یونین ٹیریٹری بنائے جانے کے بعد چار سیٹیں کم ہو سکتی ہیں۔ یعنی اگر موجودہ حد بندی ہی جاری رہتی ہے تو جموں و کشمیر میں 83 اسمبلی سیٹیں ہوں گی۔ واضح رہے کہ 2014 میں جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے انتخاب ہوئے تھے۔ اس انتخاب میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ 87 رکنی اسمبلی کے لیے ہوئے انتخابات میں پی ڈی پی کو 28، بی جے پی کو 25، نیشنل کانفرنس کو 15، کانگریس کو 12 اور دیگر کو 7 سیٹیں ملی تھیں۔ بعد میں پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ پی ڈی پی-بی جے پی اتحاد کی حکومت تین سال چل پائی۔ 2018 میں بی جے پی نے حمایت واپس لے لیا اور محبوبہ مفتی کی حکومت گر گئی۔ تب سے کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں