سوویت یونین سے یمن جنگ تک کا اصل فاتح کون؟


سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے دنیا دو قطبوں میں تقسیم تھی یا یوں کہہ لیں کہ دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی، یعنی ایک رشین بلاک جسے سوویت یونین کہا جاتا تھا، دوسرا امریکن بلاک، یعنی امریکہ کے ساتھ جوڑے ہوئے ممالک، یعنی یہ ممالک مجبور رہے کہ یا تو وہ سوویت یونین کے ساتھ رہ کر زندہ رہنے کی کوشش کریں یا پھر مجبور ہوکر امریکی بلاک کا حصہ بنیں اور امریکی سرپرستی قبول کرلیں۔ خیر اس جنگ میں امریکی سرمایہ کاری اور عرب ممالک کے کردار اور پاکستان کی سہولتکاری نے روس کی طاقت کو توڑ دیا اور ایک بڑے طاقتور ملک کو ہزاروں کلومیٹر دور سے لاکر افغانستان میں بیٹھا دیا گیا، ڈالر اور ریال کی ریل پیل نے نہ صرف افغانستان کا بٹھہ بٹھا دیا بلکہ پاکستان کو بھی اس جنگ کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد انسان لقمہ اجل بنے، 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اور ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ملک میں منشیات اور کلاشنکوف کا کلچر بھی عام ہوگیا، جس کے پاکستانی سماج پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ ملک میں بھر میں مدارس اور مساجد کا جال بچھایا گیا اور ایک خاص تعبیر والے سخت گیر مسلک کو پرموٹ کیا گیا۔

اس جنگ کا حصہ بننے کے بعد پاکستان میں اس تقسیم کو دائیں اور بائیں بازو سے موسوم کیا گیا۔ امریکہ دایاں اور سوویت یونین بایاں بازو تھا۔ یہ نظریاتی کشمکش مسلم دنیا میں بھی جاری رہی۔ خورشید ندیم کے مطابق ’’اشتراکیت کی ایک پُرجوش تحریک، پاکستان کو ورثے میں ملی۔ یہ اس ترقی پسند تحریک کا تسلسل تھا، جو متحدہ ہندوستان میں برپا تھی۔ اس کے سب سے گہرے اثرات ادب اور صحافت پر تھے۔ بھارت میں جواہر لال نہرو وغیرہ اس تحریک کے متاثرین میں ممتاز تر تھے۔‘‘ بائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے شعراء کرام کے کلام میں بھی اشتراکیت کے اثرات نمایاں ملتے ہیں۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں اور رہنماوں نے ہمیشہ افغان جہاد کا دفاع کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک طاقتور ملک کے ساتھ ملکر دوسری طاقت یعنی روس کا راستہ روکا، جو ان کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ مگر تاریخ کا دھارا بدلا اور ماضی میں امریکی کمان کا حصہ بنتے ہوئے روس کے خلاف جہاد کرنے والے طالبان آج امریکا کا کابل سے انخلا چاہتے ہیں اور جس ملک کے خلاف جہاد کیا تھا، اسی کے تعاون سے ماسکو میں مذاکراتی عمل میں بھی شریک ہیں کہ کسی طریقے سے امریکا کو کابل سے نکلا جائے۔

دائیں بازو کی جماعتوں اور سوچ رکھنے والوں کو گذشتہ سال مارچ میں اس وقت بڑا دھچکا لگا، جب افغان جہاد کو سپورٹ کرنے والے ملک سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ سرد جنگ کے دوران مغربی اتحادیوں کی درخواست پر سعودی عرب نے دنیا کی مساجد میں سرمایہ لگایا، وہابی نکتہ نظر کو پھیلایا، تاکہ سوویت یونین کی مسلمان ملکوں تک رسائی روکی جاسکے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ سعودی عرب کے مغربی اتحادیوں نے سرد جنگ کے دور میں درخواست کی تھی کہ مختلف ملکوں میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا جائے، تاکہ سوویت یونین کی جانب سے مسلم ممالک تک رسائی کو روکا جا سکے۔ شہزادے نے یہاں تک اعتراف کیا تھا کہ ماضی کی سعودی حکومتیں اس کوشش کے حصول کیلئے راستہ بھٹک گئیں، وہابی سوچ پھیلانے کیلئے آج زیادہ تر فنڈنگ سعودی حکومت کی بجائے مختلف سعودی ادارے کر رہے ہیں۔

خیر امریکا سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد چلا گیا، مگر پھر نائن الیون کے واقعہ کے بعد دوبارہ افغانستان میں آگیا اور اس بار جنگ انہی سے کی، جن کو ماضی میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا تھا، امریکی اہداف کا حصول افغانستان تک نہ روکا، اس نے پھر عراقی صدر صدام حسین کے خلاف جنگ چھیڑ دی، کون صدام؟، جی بالکل، وہی صدام جس کو 1980ء کی دہائی میں تھپکی دیکر ایران کے ساتھ جنگ کرا دی تھی، یوں ایران عراق جنگ کا خاتمہ پانچ لاکھ انسانوں کے ضیاع پر منتج ہوا، اس جنگ کے دوران بھی امریکا اور عرب ممالک نے صدام حسین کا کھل کا ساتھ دیا تھا، مگر تاریخ نے پھر پلٹا کھایا اور پھر امریکا نے اسی صدام کو گرا دیا، جس کو ماضی میں سپورٹ کر رہا تھا، امریکا اور عراق کے درمیان ہونے والی جنگ میں بھی لاکھوں انسان مارے گئے۔ بعد میں عراق میں موجودگی کو برقرار رکھنے اور اسرائیل کے دفاع کے لیے داعش کو وجود میں لایا گیا۔

2010ء میں شامی صدر بشار الاسد کی باری لگا دی گئی، یوں دنیا بھر سے دہشتگردوں کو شام میں جمع کیا گیا، مگر اس بار روس، شام اور ایران نے ملکر امریکا کی اس خواہش کو پائے تکمیل تک نہ پہنچنے دیا، ماضی میں شامی حکومت کا خاتمہ چاہنے والے ترکی نے بھی ناکام فوجی بغاوت کے بعد امریکا سے راستہ جدا کرلیا اور شام کے معاملے میں روس اور ایران کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ امریکا نے لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت گرا دی، مصر میں اخوان المسلمون کی ایک سال بعد ہی حکومت کو چلتا بنا دیا گیا، البتہ اس معاملے میں بھی سعودی عرب امریکا کے شانہ بشانہ ساتھ نظر آیا، سعودیہ نے اخوان المسلمون کی حکومت گرانے کے لیے جنرل سیسی کو 11 ارب ڈالر کی امداد بھی دی، معاملہ یہاں نہ رکا اور سعودی عرب نے 41 رکنی ممالک کا اتحاد بنا کر یمن پر جنگ مسلط کر دی، جو چار سال گزرنے کے بعد بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی، البتہ امریکی اسلحہ کی فروخت زور و شور سے جاری ہے۔

یمن جنگ میں بھی ہزاروں انسانی زندگیاں لقمہ اجل بن چکی ہیں، بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سیو دی چلڈرن نے نومبر 2018ء میں اپنی رپورٹ جاری کی تھی کہ یمن میں تین سال سے جاری قحط سالی کی وجہ سے اب تک 85 ہزار بچے مر چکے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کے مطابق یہ تعداد برطانیہ کے شہر برمنگھم میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد کے برابر ہے۔ اقوام متحدہ نے یہاں تک خبردار کیا تھا کہ ایک کروڑ یمنی آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ عالمی اداروں کی کوشش کے باوجود یمن سعودی عرب جنگ کو نہیں روکا جا سکا۔ مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے مغربی رائٹر اور معروف صحافی رابرٹ فسک کے مطابق ’’مڈل ایسٹ میں تمام تر خون خرابے کے اصلی فاتح تو اسلحہ سازی کی صنعت سے وابستہ سرمایہ دار ہیں۔‘‘ یعنی خطے میں ساری جنگیں ہی اسلحہ کی فروخت کے گرد گھوم رہی ہیں۔

اگر یہ جنگیں رک گئیں تو امریکا، فرانس اور برطانیہ اپنا اسلحہ کیسے بیچیں گے۔ اس لیے مسلم ممالک میں جنگیں جاری رہنا مغرب کے مفاد میں ہے۔ امریکا نے شام کے بعد افغانستان سے انخلاء کا بھی اشارہ دیا ہے، مگر کب تک یہ عملی ہوسکے گا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چار دہائیوں سے جاری جنگ اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ سعودی عرب اگر یمن کے ساتھ فوری طور صلح کرلے، اقتدار کے فارمولے پر انصار اللہ کے مطالبات مان لیے جائیں اور یمن کی تعمیر نو پر توجہ دی جائے تو شائد مزید نقصان سے بچا جا سکے، اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا نقصان ریاض کو بھی اٹھانا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں