یورپی یونین کے لیے سن 2019ء بھی آسان نہیں ہوگا،

برسلز،۲۵؍دسمبر(پی ایم آئی)آئندہ برس یورپی پارلیمان اور یورپی کمیشن کے انتخابات ہوں گے۔ یورپی یونین میں تبدیلی تو آئے گے لیکن عوامیت پسندی، تجارتی جنگ، مہاجرت اور بجٹ جیسے مسائل برقرار رہیں گے۔ کیا آئندہ برس سن 2018ء سے بھی مشکل ثابت ہوگا؟بریگزٹ کے حوالے سے برطانیہ کے ساتھ سست روی کے شکار مذاکرات، امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ، یورپ میں عوامیت پسندی کی لہر اور پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ میں قانون کی حکمرانی کی کمی جیسے مسائل نے رواں برس یورپی یونین کو مصروف رکھا لیکن کیا آئندہ برس اس سے بھی برا ثابت ہو سکتا ہے؟ جی بالکل ہو سکتا ہے لیکن لازمی نہیں ایسا ہی ہو۔مئی دو ہزار نو میں یورپی پارلیمان کے نئے انتخابات ہوں گے۔ بعدازاں خزاں میں یورپی کمیشن سے لے کر یورپی مرکزی بینک تک یونین کے تمام اعلیٰ دفاتر میں نئے عہدیدار براجمان ہونا ہیں۔ اس طرح یورپ کو درپیش مسائل خود بخود تو حل نہیں ہوں گے لیکن ایک نئے آغاز کی توقع ضرور ہے۔
پارلیمان میں مزید بنیاد پرست
انتخابی جائزوں کے مطابق یورپی پارلیمان میں آئندہ برس دائیں بازو کے بنیاد پرستوں اور عوامیت پسند اراکین کی تعداد دس سے بڑھ کر بیس تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ بنیاد پرست یورپی پارلیمان میں کوئی بڑی طاقت بن کر تو نہیں ابھریں گے لیکن ان کا اثرو رسوخ زیادہ ہو جائے گا۔ یہ ارکان انضمام اور اصلاحات کے عمل کو مغوی بنا سکتے ہیں۔ انتخابی نتائج یورپی یونین کے عوام میں مزید بے چینی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہاں پر یورپی یونین کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ امن اور خوشحالی کے لیے ’سب سے پہلے میرا ملک‘ کی بجائے ’یورپ زیادہ اہم‘ ہے۔
یورپی یونین چھوٹی ہو جائے گی
برطانیہ کے اخراج کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ یورپی یونین سکڑ جائے گی۔ اگر خارجہ اور سلامتی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یورپی یونین کے لیے یہ یقینی طور پر ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ برطانیہ کی فوجی طاقت کے بغیر دنیا میں یورپی یونین کا شمار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں معاشی لحاظ سے یورپی یونین برطانیہ کے بغیر بھی اپنے مسائل سے نمٹنے کی طاقت رکھتی ہے۔دوسری جانب برطانیہ کے لیے بریگزٹ کے نتائج اس سے بھی برے ہو سکتے ہیں اور اس کا اندازہ خود برطانوی حکومت کو بھی ہے۔ برطانوی ایوان زیریں میں بریگزٹ کے عمل کو مکمل بلاک کرنے سے یہ موقع ابھی بھی موجود ہے کہ بریگزٹ کو ملتوی کر دیا جائے لیکن مطلوب تو یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے۔
نئے مسائل کا سامنا
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد اٹلی جیسے ملکوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ دوسری جانب اٹلی کی عوامیت پسند نئی حکومت یورپی یونین میں غیریقینی صورتحال کا باعث بن رہی ہے۔ دائیں بازو کی بنیاد پرست حکمران پارٹی کے سربراہ ماتیو سالوینی وزارت داخلہ کے عہدے سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ وزیراعظم کا عہدہ چاہتے ہیں اور انتخابات میں برسلز مخالف مہم چلائیں گے۔یورپ میں عوامیت پسندی کے خلاف بڑی آوازوں میں سے ایک فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں ہیں۔ لیکن اگر فرانس میں ’پیلی جیکٹوں‘ والے مظاہرین کی وجہ سے ان کی طاقت میں کمی آتی ہے تو یورپی یونین اپنے انجن کو چلانے والے بلیٹ سے محروم ہو جائے گی۔یورپی یونین کے داخلی بحرانوں سے قطع نظر روس کے خطرے، ٹیکنالوجی کے میدان میں چین سے مقابلے، افریقہ میں اثرو رسوخ اور وائٹ ہاوس کے غیر متوقع رویے کی وجہ سے خارجہ طوفانوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ ڈیجیٹل دنیا میں تبدیلی، مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافے اور ماحول دوست معیشت کو سن دو ہزار نو میں نئی طاقت اور نئے خیالات کی ضرورت ہو گی۔ یہاں پر یورپی یونین اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ یورپ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ جو کچھ مشترکہ کوششوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے وہ تنہا ممکن نہیں ہے۔مشرقی یورپ میں سماجی تبدیلیوں کے تیس برس بعد سن 2019ء کوئی آسان سال ثابت نہیں ہو گا لیکن کیا یورپی یونین کے لیے کوئی ایک برس آسان بھی تھا؟ یورپی یونین بحرانی صورتحال سے نمٹنے کی عادی ہو چکی ہے۔ یہ آئندہ برس بھی ممکنہ بحرانوں کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر ہی لے گی۔

کرسمس: مسلمان ممالک میں 25 دسمبر کو کیا ہوتا ہے؟
لندن،۲۵؍دسمبر
(پی میں 21 سال پہلے برطانیہ آیا تھا لیکن ہر سال مجھ سے کرسمس کے موقعے پر یہی سوال پوچھا جاتا ہمیں جواب میں کہتا ہوں کہ ترکی مسلمان اکثریتی ملک ہے اس لیے 25 دسمبر اس کے کیلنڈر میں باقی دنوں کی طرح ایک عام دن ہے۔
نو کرسمس
یہ بات صرف ترکی ہی پر صادق نہیں آتی، دنیا کی اکثریت کرسمس سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ یہ بات مغرب میں رہنے والوں کے لیے حیرت انگیز ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کرسمس کوئی بین الاقوامی تہوار ہے۔ لیکن کرسمس حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا تہوار ہے جنھیں صرف مسیحی مانتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں، یہودیوں، بودھوں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔اسلام حضرت عیسیٰ کو پیغمبر ضرور مانتا ہے لیکن ان کی پیدائش کا جشن نہیں مناتا۔ قرآن میں حضرت عیسیٰ کو سب سے جلیل القدر انسانوں میں ایک قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ حیرت انگیز طور پر قرآن میں حضرت عیسیٰ کا نام حضرت محمد کے نام سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔اس کے علاوہ قرآن میں صرف ایک خاتون کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ اور وہ ہیں حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم۔یہی نہیں بلکہ ان کے نام پر ایک سورہ کا نام بھی رکھا گیا ہے۔قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت مریم کنواری تھیں اس لیے جب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو لوگوں نے ان پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں۔ لیکن اس موقعے پر نوزائیدہ بچہ یعنی حضرت عیسیٰ بول پڑے اور کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔مسلمانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ کا ذکر آئے تو وہ علیہ السلام ضرور کہیں، جس کا مطلب ہے ان پر سلامتی ہو۔اس کے علاوہ اسلامی عقیدے کے مطابق قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ہی دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کا ذکر اسلامی ثقافت کا لازمی جزو ہے۔مشہور صوفی فلسفی امام غزالی نے انھیں ‘روح کا پیغمبر’ قرار دیا ہے، جب کہ ابن عربی انھیں ‘صوفیا کا خاتم’ کہتے ہیں۔دنیا بھر میں مسلمان لڑکوں کا نام عیسیٰ اور لڑکیوں کا نام مریم رکھا جاتا ہے۔لیکن کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کوئی مسیحی اپنے بچے کا نام محمد رکھے؟مسلمان ابتدا ہی سے حضرت عیسیٰ سے مانوس تھے کیوں کہ ساتویں صدی کے شروع میں جب اسلام کا آغاز ہوا تو عیسائیت نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں پھیل چکی تھی بلکہ خود صحرائے عرب میں بھی جگہ جگہ مسیحی بستیاں قائم تھیں۔مسلمان تو حضرتِ عیسیٰ کو برگزیدہ نبی سمجھتے ہیں، لیکن دوسری طرف مسیحی چرچ اس کا جواب کچھ اور طریقے سے دیتا ہے اور وہاں صدیوں سے حضرت محمد سے نفرت کا واضح اظہار ملتا ہے۔ اس کی مثالیں ان کے آرٹ میں بھی نظر آتی ہیں۔
بین المذاہب مکالمہ
2002 میں اسلامی شدت پسندوں نے بولونیا کے ایک چرچ کی دیوار پر بنی فریسکو پینٹنگ کو دھماکے سے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا جہاں حضرت محمد کی شبیہ دکھائی گئی ہے۔ اس کے بعد سے یورپ کے مختلف شہروں میں اسلام کے نام پر حملے کیے گئے ہیں جن سے ان دونوں مذاہب کے درمیان خلیج مزید گہری ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسیحی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی حضرتِ عیسیٰ کے بارے میں جانے۔دونوں مذاہب کے درمیان موجود فرق کی بجائے اگر اشتراکات پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ خلیج پاٹی جا سکتی ہے۔

متحدہ عرب امارات: شہزادی لطیفہ کی تصاویر جاری
دبئی،۲۵؍دسمبر
(پی ایم آئی)
دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی بیٹی شہزادی لطیفہ کی تصاویر جاری کر دی گئی ہیں۔ شہزادی لطیفہ کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ انہیں ملک سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران زبردستی دبئی واپس لے جایا گیا تھا۔متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق شہزادی لطیفہ دبئی میں اپنے گھر پر ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ قبل ازیں شہزادی لطیفہ کی ایک چالیس منٹ دورانیے کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا، ’’اگر آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو سمجھیے کہ یا تو میں مر گئی ہوں یا میں بہت برے حالات میں ہوں۔‘‘حکومتی بیان کے مطابق شہزادی لطیفہ نے اکیس دسمبر کو خاندان کی درخواست پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی سابق ہائی کمشنر میری رابنسن سے ملاقات کی تھی۔ اس حوالے سے جاری کی جانے والی تصاویر میں دونوں خواتین کو مسکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔شہزادی لطیفہ کے والد شیخ محمد بن راشد المکتوم دبئی کے حکمراں ہونے کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم اور نائب صدر بھی ہیں۔بتیس سالہ شیخہ لطیفہ کا ماضی میں منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں کہنا تھا کہ وہ اپنے والد سے دور جانا چاہتی ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق شہزادی لطیفہ نے ایک بحری کشتی کے ذریعے رواں برس فروری میں دبئی سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن ان کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔اس گرفتاری سے قبل آخری مرتبہ شہزادی لطیفہ کو فن لینڈ کی اس کی ایک دوست ٹینا اور سابق فرانسیسی ایجنٹ ہاروے ڑوبا نے دیکھا تھا۔ اطلاعات کے مطابق شہزادی نے انہی دونوں کے ساتھ مل کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ شہزادی لطیفہ اپنی دوست ٹینا کے ساتھ عمان کے دارالحکومت مسقط پہنچی تھیں۔ مسقط کے قریب بین الاقوامی سمندر میں ہاروے ڑوبا ان کا انتظار کر رہا تھا، جہاں سے وہ تینوں بھارت کی سمندری حدود میں داخل ہوئے تھے۔ ٹینا اور سابق فرانسیسی ایجنٹ ہاروے ڑوبا کے مطابق تقریبا چھ دن بعد اماراتی کمانڈوز کی ایک خفیہ کارروائی کے دوران شہزادی لطیفہ کو پکڑ لیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے اب پہلی مرتبہ شہزادی کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں تب سے شہزادی کی قسمت کے حوالے سے خدشات ظاہر کر رہی تھیں۔

لیبیا : وزارت خارجہ کی عمارت پر حملہ ، 4 افراد ہلاک اور 12 زخمی
طرابلس،۲۵؍دسمبر
(پیایم آئی)
لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں منگل کے روز وزارت خارجہ کی عمارت پر ہونے والے زور دار دھماکے کے نتیجے میں سرکاری ملازمین سمیت کم از کم 4 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ 12 زخمی ہو گئے۔العربیہ کے ذرائع کے مطابق حملہ دو خود کش بمباروں نے کیا۔ ان میں ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ دوسرا لیبیا کی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارا گیا۔العربیہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں لیبیا کی وزارت خارجہ میں اسلامی تعاون کے شعبے کے ڈائریکٹر ابراہیم الشابی بھی شامل ہیں۔ابھی تک کسی تنظیم نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔حملے کے بعد لیبیا کے دفتر خارجہ کی عمارت کے اندر دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دی گئیں جس کے بعد عمارت سے دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیے۔

خامنہ ای کے ممکنہ جاں نشیں شاہرودی کی وفات کے بعد اْن کی جگہ کون لے گا ؟
تہران،۲۵؍دسمبر
(پی ایم آئی)
ایران میں مجلس تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ آیت اللہ محمود ہاشمی شاہرودی کی وفات کے حوالے سے متضاد خبروں کے بعد ایرانی حکام نے پیر کی شب دارالحکومت تہران کے ایک ہسپتال میں ان کی موت کا اعلان کر دیا۔ایران میں انسانی حقوق کی تنظیمیں 70 برس میں وفات پانے والے شاہرودی پر الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ انہوں نے عدلیہ کی سربراہی کے دوران (1999-2009) دس برس میں موت کے گھاٹ اتارے جانے کی 2000 کارروائیوں کی نگرانی کی۔ اْس وقت وہ رہبر اعلی علی خامنہ ای کے قریبی حلیف تھے اور تجزیہ کار انہیں خامنہ کا ممکنہ جاں نشیں شمار کرتے تھے۔شاہرودی رواں سال جنوری میں علاج کے لیے جرمنی گئے تھے تاہم ایرانی اور جرمن کارکنان کی جانب سے “قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم” کے الزام کے تحت مقدمہ دائر کیے جانے پر وہ دورہ ختم کر کے واپس ایران لوٹ آئے۔ ہینوفر میں سیکڑوں ایرانیوں نے neurological treatment centerکے سامنے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین شاہرودی کے علاج کی منظوری پر مذکورہ طبی مرکز کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس دوران فارسی اور جرمن زبانوں میں شاہرودی اور ایرانی نظام کے خلاف زوردار نعرے لگائے گئے۔جرمنی میں سابق رکن پارلیمنٹ والکر پیک نے ایرانی مجلس تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ محمود ہاشمی شاہرودی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ شاہرودی کو حراست میں لے کر اْن کے خلاف “قتل اور انسانیت مخالف جرائم” کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شاہرودی نے سیاسی کارکنان کی جبری گرفتاریوں میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ان کی کڑی نگرانی میں درجنوں اخبارات پر پابندی عائد کی گئی اور متعدد صحافیوں اور بلاگروں کو طویل المیعاد سزائیں سنائی گئیں۔شاہرودی 1948 میں نجف میں پیدا ہوئے۔ وہ 1979 کے انقلاب کے بعد ایران منتقل ہو گئے۔ انہیں ایران اور عراق میں شیعوں کی ایک اہم مذہبی شخصیت شمار کیا جاتا تھا۔ تاہم ایران میں بعض حلقوں نے شاہرودی کی عراقی شہریت کے سبب مرشد اعلی کی جاں نشینی کے واسطے اْن کی نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا تھا۔شاہرودی کی وفات کے ساتھ ہی ان کے منصب پر کام کرنے کے لیے ایران کی متعدد سیاسی اور مذہبی شخصیات کے نام پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سرفہرست سابق صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی ہیں۔ ان کے علاوہ ایرانی عدلیہ کے سابق سربراہ صادق لاریجانی کا بھی نام لیا جا رہا ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق لاریجانی جلد ہی اپنا منصب چھوڑ دیں گے اور ان کی جگہ ابراہیم رئیسی لیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں