سری نگر: وادی کشمیر میں جس طرح شمالی کشمیر کا قصبہ سوپور اور جنوبی کشمیر کا قصبہ پانپور بالترتیب سیب اور زعفران کی پیداوار کے لئے مشہور ہے ، اسی طرح جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں سری نگر جموں قومی شاہراہ پر پڑنے والا ‘ہالمولہ سنگم’ نامی گاؤں کرکٹ کے بلوں کی مینوفیکچرنگ کے لئے اپنی الگ شناخت و پہچان رکھتا ہے ۔
ہالمولہ سنگم کے تعلق سے یہ بات خاص ہے کہ قریب 100 گھرانوں پر مشتمل یہ پورا گاؤں ‘کرکٹ بیٹ میکنگ کاروبار سے وابستہ ہے ‘۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں جو گذشتہ 40 برسوں سے کرکٹ کے بلے بنانے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے بلے بنانے کے لئے کشمیری بید کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے اور تیار شدہ بلوں کو بلک میں (بڑی تعداد میں) مختلف بھارتی شہروں میں برآمد کیا جاتا ہے ۔ ہالمولہ میں گذشتہ قریب چالیس برسوں سے قائم بیٹ مینوفیکچرنگ یونٹ ‘شاہین اسپورٹس’ کے مالک زبیر احمد نے یو این آئی کو بتایا کہ انہیں یہ کاروبار اپنے دادا کی طرف سے وراثت میں ملا ہے ۔
انہوں نے بتایا ‘یہ پورا گاؤں جو کہ قریب 100 گھرانوں پر مشتمل ہے بیٹ میکنگ کے کاروبار کے ساتھ وابستہ ہے ۔ بعض نذدیکی دیہات میں بھی لوگ اس کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں، تاہم ہالمولہ کے تعلق سے یہ بات خاص ہے کہ یہ پورا گاؤں صرف بیٹ میکنگ کاروبار کے ساتھ ہی وابستہ ہے ۔ آپ کو ہر ایک گھر میں اس کاروبار سے منسلک لوگ ملے گا۔ ہر ایک گھر کا اپنا کارخانہ ہے ۔
بیشتر گھرانے اس کاروبار کے ساتھ گذشتہ چالیس برسوں سے وابستہ ہیں۔ ہمارے گھر کو ہی لیجئے ۔ ہم گذشتہ چالیس برسوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ہمیں یہ کاروبار اپنے داد غلام احمد کی طرف سے وراثت میں ملا ہے ‘۔ انہوں نے بتایا ‘ہمارے کارخانے میں چھ کاریگر کام کررہے ہیں۔ یہ کارخانہ اور اس سے ملحق شیوروم ہماری اپنی ملکیت ہے ۔ جس زمین پر یہ قائم ہے ، وہ بھی ہماری اپنی ہے ‘۔ زبیر نے بتایا کہ کشمیر میں بنائے جانے والے کرکٹ کے بلوں کے لئے کشمیری بید کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے بتایا ‘ ہم اپنے کاروبار سے خاصے مطمئن ہیں۔ ہم کرکٹ بیٹ بنانے کے لئے مقامی بید کی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔تاہم ہینڈل بیرون ریاستوں سے درآمد کئے جاتے ہیں۔ ہم تیار شدہ بلے ممبئی میں اپنے ڈیلروں کو بھیجتے ہیں’۔ تاہم شاہین اسپورٹس کے مالک زبیر کا کہنا ہے کہ کشمیری بید کی لکڑی سے بنے کرکٹ کے بلوں کا استعمال صرف گھریلوں سطح پر کھیلی جانے والی کرکٹ میں کیا جاتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا ‘ کشمیری بید کی لکڑی سے بنے بلے کا استعمال ابھی تک کسی بھی بین الاقوامی سطح پر کھیلے گئے کرکٹ مقابلے میں نہیں کیا گیا ہے ۔ کشمیری لکڑی سے بنے بلوں کا استعمال زیادہ تر گھریلو کرکٹ کے لئے کیا جاتا ہے ۔ ہمارے شیو روم میں جو کرکٹ بلے موجود ہیں، ان کی قیمت 150 سے 1000 روپے کے درمیان ہے ‘۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سے گذرنے والے سیاح اپنی گاڑیاں ایک طرف کھڑی کرکے ہم سے کرکٹ کے بلے خریدتے ہیں اور ہم انہیں قیمتوں میں چھوٹ دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں بید کے درخت انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد لگائے تھے ۔ کشمیری بید کی لکڑی انگلش بید کے بعد دوسری سب سے اچھی لکڑی سمجھی جاتی ہے ۔ جنوبی کشمیر میں ہالمولہ کے علاوہ مرزا پورہ، چرسو، بجبہاڑہ، ستہ ہار اور متعدد دیگر دیہات میں لوگ کرکٹ کے بلے بنانے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ شاہین اسپورٹس بیٹ میکنگ یونٹ میں کام کرنے والے غیرکشمیری کاریگر یشپال کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں 500 سے 700 روپے کما لیتا ہے ۔ انہوں نے بتایا ‘مجھے یہ کام سیکھنے میں پانچ سال لگے ۔ دن بھر کام کروں گا تو 500 سے 700 روپے کما لیتا ہوں’۔ یشپال بیٹ میکنگ کے مختلف مرحلوں کے بارے میں بتاتے ہیں ‘پہلی لکڑی کاٹی جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس کو بیٹ کی شکل دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس پر ریگمال کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہینڈل نصب کیا جاتا ہے اور اس کو چمکانے کا کام شروع کیا جاتا ہے ۔ سب سے آخر میں اسٹیکر لگائے جاتے ہیں’۔ غلام حسن ڈار نامی مقامی کاریگر کا کہنا ہے ‘ میں سنہ 2004 سے اس کام کے ساتھ وابستہ ہوں۔ میں صرف یہی ایک کام جانتا ہوں۔ اس کام سے بہ آسانی ہمارا گذارا ہوجاتا ہے ‘۔ عبدالرحمان ڈار نامی ایک اور کاریگر کا کہنا ہے ‘ میں گذشتہ 26 برسوں سے اس کام کے ساتھ وابستہ ہوں۔ میں ہر روز قریب 400 سے 500 روپے کما لیتا ہوں۔ اس کام کی سب سے بڑی خاصیت ہے کہ یہ سال بھر کیا جاسکتا ہے ۔ میں صرف یہی کام جانتا ہوں’۔